27.12.12

"ادب کی اہمیت" از سرمد بن سعید

شاید ہی کوئی اور معاشرہ اتنا بے ادب ہو جتنے ہم ہیں۔ ادب اور ادیبوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا نہیں کیا؟ زیادہ دور کیوں جاتے ہیں ، احمد فراز صاحب ہی کو لے لیجئے۔ ان کی شان میں ایسی ایسی گستاخیاں اور ان پر ایسے  ایسےبہتان کہ خدا کی پناہ۔ کہاں وہ لوگ ہوا کرتے تھے کہ ان کے خطوط کو بھی ادب کی ایک صنف مانا جاتا ہے اور کہاں ہم کہ ہمارے ایس ایم ایس مزاحیہ ہوں اور ان میں انہی کی دُرگت نہ بنائی گئی ہو۔ ہم نے تو جس جس کو ادب پڑھتے دیکھا ہے بس مزے اور چسکے  لینے کے لئے ہی دیکھا ہے۔ کالج کے زمانے میں میرے ہم نشیں بند کمروں میں بیٹھ کر منٹو کے افسانوں سے سرور حاصل کیا کرتے تھے ۔  منٹو  کی فکر تک تو  وہ شاید ہی پہنچ پاتے ہوں البتہ ان کی دن بدن کمزور ہوتی  صحت سے یہ ضرور لگتا تھا کہ کچھ آنسو  تو انہوں نے ضرور بہائے ہوں گے۔ 

ادب کی  اور خصوصاََ اردو ادب کی ایک خصوصیت ہے کہ اس میں ہر بات کہی جا سکتی ہے۔ استعارے  کا استعال، منظر کشی ، اسلوبِ بیاں غرض اردو  ادب میں ایسی ایسی  گھمن گھیریاں ہیں کہ   معاشرے کی گھٹیا سے گھٹیا  خامیوں کو بھی  نہایت دلکش   اور دل نشیں لباس میں پیش کر کے   لوگوں کو  احساس دلایا جا سکتا ہے۔ ادب ماضی میں معاشرے کی اصلاح  اور انقلاب کا ایک موءثر ذریعہ رہا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے  کہ معاشرے میں پنپنے والی برائیوں  کو اگر سب سے پہلے کوئی محسوس کرتا ہے تو وہ اس معاشرے کا ادیب ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں ادیب نہ ہوں تو جان لیجئے کہ وہ معاشرہ  بے حس ہوچکا ہے۔ اور جس معاشرے کا ادیب  ایمان فروشی کی بنیاد پر حقائق سے چشم پوشی اختیار کرے تو جان لیجئے کہ وہ معاشرہ برِصغیر  پاک و ہند میں اور خصوصاََ پاکستان میں ادب کو زمانے کی جدت کے مطابق ڈھالا نہیں گیا۔
ادب ان کہی باتوں کو کہنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ادیب بننے کے لئے کسی ڈگری یا سفارش کی ضرورت نہیں۔  ہر انسان محسوس کرتا ہے اور مختلف طریقے سے محسوس کرتا ہے۔ بس انہی احساسات کو الفاظ کا لبادہ پہنا کر  معاشرے کے سپرد کرنا ایک ادیب کا کام ہوتا ہے۔  اردو ادب نے احسان دانش جیسے مزدور کو بھی ایک  چمکتا ستارہ بنتے دیکھا ہے۔


اس تحریر کے مصنف سرمد بن سعید پیاس میں بی ایس الیکٹریکل انجنئیرنگ سالِ سوم میں زیرِتعلیم ہیں۔

No comments:

Post a Comment